Sunday, August 25, 2024

وہ فرشتہ تھا, بس پر نہیں تھے: انور ندیم کا ایک قلمی اسکیچ


  مجھے یاد نہیں آرہا ہے کہ میری ملاقات انور ندیم صاحب سے کس نے کرائی شاید پرویز ملک زادہ نے. جب میری ملاقات انور ندیم صاحب سے ہوئی تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں بہت سے ردی کاغذ کو ٹٹول رہا ہوں اور اچانک کوئی ایک کورا صاف شفاف کاغذ مل گیا ہو اس کورے کاغذ کی طرح بیداغ شخصیت تھی ان کی. 

   میرا ان کے نشاط گنج اور پھر  رنگ روڈ پر واقع بنگلے میں اکثر جانا ہوتا تھا صدر گیٹ کی کنڈی کے کھڑکنے کی آواز پر ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولتا تھا اور پھر تقریبا دوڑتے ہوئے وہ گیٹ پر آپ کے استقبال کے لیے آتے تھے.

    "ارے بھائی! آئیے" ان کا مخصوص جملہ ہوتا تھا مہمان اپنے اس ریڈ کارپیٹ استقبال سے متحیّر جب ڈرائنگ روم میں آجاتا تھا تو ایک لمحہ کے لیے وہ پھر غائب ہو جاتے  اس بار ان کی آمد باورچی خانے سے ہوتی تھی ان کے ہاتھوں میں پانی بھرے گلاس کی ٹرے ہوتی وہ آپ کی صحت اور لباس پر کچھ دلچسپ اور سچّے جملے کہتے تھے سچّے جملوں سے مطلب تھاکی ایک مرتبہ ایک صاحب سوٹ ٹائی میں ملبوس انور ندیم سے اپنی شخصیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کسی تمہید کے بغیر کہا کہ آپ بالکل کن میلیئے لگ رہے ہیں سوٹ مت پہنا کیجئے. یعنی ہمیشہ آپ ان سے تعریف کی ہی امید نہ کریں اسی درمیان وہ اپنی وائف کو فریادی آواز میں مطلع کرتے ہیں ." منجو جی.. آئیے دیکھیے کون آیا ہے" منجو جی ڈرائنگ روم میں آتیں  اور ان کے ساتھ  ان کے نازک سے بیٹے نورس صاحب بھی اپنی بے پناہ خوش دلی کے ساتھ محفل میں شامل ہو جاتے

   


 باتوں کی بوندا باندی شروع ہوتی جو رفتہ رفتہ یکساں رفتار پکڑ لیتی ایسی شیریں نرم گفتار نشیب و فراز سے آراستہ بیان جیسے  رات رانی کا درخت ہولے سے ہلا دیا گیا ہو اور پھول جھڑ پڑے ہوں ایسی رچی بسی نثری گفتگو جسے سیمنار اور سمپوزیم میں مکالمہ نگار گھنٹوں کی محنت کے بعد تحریر کرتا ہے انور ندیم صاحب کسی تیاری کے بغیر بے ساختہ بولتے ہیں زبان اور بیان پر ایسی قدرت ڈاکٹر ملک زادہ منظور صاحب کے بعد انور ندیم میں ہی مجھے نظر آئی باتوں کے درمیان ناشتے کا دور مسلسل چلتا رہتا ہے اب آپ مکمل ان کے حصار میں ہیں جو بھی وہ پیش کرتے جائیں آپ کو کھانا تو ہے ہی انکار کی کوئی صورت نہیں تھی اگر کھانے کا وقت ہوا تو آپ کو ڈائننگ ٹیبل پر تو بیٹھنا ہی ہے مہمان نوازی

      میں انور ندیم صاحب کا رویہ محبت آمیز  ظالمانہ تھا میں نے کئی صاحب حیثیت کو گلوکوز کے بسکٹ اور چائے پر مہمان نوازی کا فرض ادا کرتے دیکھا ہے ایسی صورت میں انور صاحب کا یہ رویہ عجب غضب تھا انور ندیم صاحب بلا امتزاج سبھی کے ساتھ یکساں پیش آتے خواہ وہ امیر ہو یا مفلوک الحال وہ گاڑی سے آیا ہو یا سائیکل سے.. برسوں وہ مہمان سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ وہ کرتے کیا ہیں جب میرا شہناز صاحبہ کے ساتھ ان کے گھر جانا ہوا تو انہوں نے ہمارے رشتوں کے تعلق سے کوئی تجسس ظاہر نہ کیا وہ سبھی کے خوشی اور غم میں سراپا شامل تھے لیکن اگر کوئی ان پر رعب غالب کرنے کے لیے کچھ اسپیشل اہتمام کرے تو وہ عین وقت پر ڈاج دے دیتے تھے ایک نوجوان شاعر نے انہیں فائو  اسٹار ہوٹل کلارک اودھ میں ڈنر پر مدعو کیا وہ ہوٹل میں ان کا انتظار ہی کرتا رہا انور ندیم صاحب سرے سے گئے ہی نہیں. 

   


ان کی خودداری ایک نفسیاتی الجھاؤ تھی وہ اس حد تک کی اگر ان سے کوئی کہے کہ جہاں آپ جا رہے ہیں ادھر ہی میں بھی جا رہا ہوں آئیے میں آپ کو اپنی گاڑی سے ڈراپ کر دیتا ہوں تو وہ ٹال جاتے اور خود اپنے وسائل سے وہاں پہنچنا پسند کرتے ولایت جعفری صاحب ان کے اچھے دوست تھے لیکن جس روز وہ دوردرشن کے ڈائریکٹر ہوئے انور ندیم صاحب نے ان سے دوریاں بنا لیں انہیں لگا کہ ولایت جعفری صاحب ان کی آمد کو کوئی مطالبہ نہ سمجھ لیں انور ندیم صاحب کی انہیں زاید خودداریوں کی وجہ سے ایک اچھے شاعر ہونے کے باوجود مشاعروں کی دنیا میں انہیں وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے وہ مشاعروں کی دنیا داری سے واقف نہیں تھے خوشامد اور مصلحت پسندی ان کے مزاج میں نہ تھی مشاعروں کی منعقدین کو کبھی گھاس نہ ڈالی ان کی کتاب "جلتے توے کی مسکراہٹ" میں مشاعروں کی دلچسپ رپورٹ ہیں ان کا مشاہدہ حیرت انگیز تھا وہ چند لمحوں میں کسی شخصیت کو اسکین کر کے کچھ ایسے پہلو ڈھونڈ لیتے تھے جو اس کی پوری شخصیت کی نمائندگی کرتی ہو ایک شاعر کو انہوں نے ٹرک ڈرائیور کہا, کسی کو کتب فروش ایک معزز شخصیت کو گن فروش ایک شاعر کو نخاس بازار کا لنگی فروش ایک خاتون کو امر مسکراہٹ سیمنار آرگنائزر کو بوڑھی رنڑی کسی کو نہ  نواز نہ شاہ صرف قریشی ان کے تیزابی جملوں سے کچھ حد تک توہین آمیز جملوں کی وجہ سے اردو ادب اور شاعری کی آدھی دنیا ان سے ناراض ہو گئی اسی دوران ڈاکٹر ملک زادہ منظور صاحب نے ایک رسالہ امکان کی شروعات کی انور ندیم صاحب اس رسالے کے غیر اعلانیہ مدیر* تھے میں بھی امکان میں پروموشن اور ڈسٹریبیوشن کے شعبے میں سرگرم تھا میں نے اپنا ایک افسانہ امکان میں شائع ہونے کے لیے انور ندیم صاحب کو دیا انور ندیم صاحب مسکرائے اور افسانے کو خاموشی سے رکھ لیا اس وقت میرے دل میں شدت کی "چھپاس" تھی افسانہ انہوں نے شائع کیا لیکن املا کی غلطیوں کو انڈرلائن کرتے ہوئے ایک نوٹ کے ساتھ کہ آج کے نوجوان اردو میں لکھنا تو چاہتے ہیں لیکن اردو رسم الخط لکھتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپتے ہیں وغیرہ.. مجھے ان کی اس طرز نصیحت سے بہت حوصلہ ملا اور میں نے سمجھ لیا کہ ادب میں شارٹ کٹ طریقہ نہیں ہو سکتا زبان تو سیکھنی ہی پڑے گی

    رنگ روڈ پر ان کے بنگلے "نمن" کی تعمیر کے بعد انہوں نے سنگ مرمر کے پینل پر تعمیر میں شامل مزدوروں اور مستریوں کے نام کھدوائے اور پھر اس پینل کو بنگلے کی دیوار پر جڑوا دیا مساوات اور سوشل یکجہتی کے پرچم بردار ان کمیونسٹ کامریڈوں کو اس سے سبق لینا چاہیے جیسے انور ندیم نے مزدوروں کو عزم اور عزت بخشی.

 انور ندیم صاحب شہر میں اکثر رکشے سے سفر کرتے تھے غریب رکشے والا پسینے سے لت پتھ گرمیوں میں رکشہ کھینچ رہا ہوتا تھا کہ اچانک سڑک کے کنارے لسّی کی دوکان پر رکشہ رکوا دیتے اور کچھ لسی کے گلاس لے آتے وہ خود بھی پیتے اور ایک گلاس کو بہت عزت سے رکشے والے کو پیش کر تے وہ غریب رکشے والا جس سے کوئی سیدھے منہ بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا اس کی مشکور آنکھوں کی چمک ندیم صاحب کی جستجو حیات تھی. 

    آفاق الماس.. ممبئ